برطانیہ میں ایک کیمسٹری پڑھانے والے استاد جو شام جا کر دولتِ اسلامیہ کے ساتھ جہاد کرنے کے لیے سفر کرنے والے تھے کو چھ مہینے کی قید کی سزا دی گئی ہے۔
جمشید جاوید جن کا تعلق مانچسٹر سے ہے اپنے خاندان کے منع کرنے کے باوجود ’شام جا کر جہاد کرنے پر آمادہ‘ تھے۔
تیس سالہ جاوید نے وولچ کراؤن کورٹ میں دہشت گردی کے الزامات کو تسلیم کیا مگر دعویٰ کیا کہ وہ شام جا کر عام شامی شہریوں کی مدد کرنا چاہتے تھے۔
انہیں دسمبر 2013 میں برطانیہ چھوڑنے سے چند گھنٹے قبل گرفتار کیا گیا تھا اور اُن دنوں وہ بولٹن کے شارپلز ہائی سکول میں پڑھاتے تھے اور اس سے قبل اپنے چھوٹے بھائی محمد کی شام جانے میں مدد کر چکے تھے۔
ان کے رشتہ داروں نے ان کا پاسپورٹ چھپا کر ان کے جانے کے منصوبے میں خلل ڈالا مگر وہ اپنی بیوی کے حاملہ ہونے کی خبر سننے کے باوجود جانے پر مصر تھے۔
پولیس کو اُن کی تحویل سے 1490 پاؤنڈز ملے اس کے علاوہ اُن کے پاس سردی سے بچاؤ والے دستانے، ایک جنگی سٹائل کا ٹراؤزر اور ایک کمر پر لادنے والا بیگ ملا۔
اس سے پہلے کی ایک سماعت میں جاوید نے دہشت گردی کی تیاری میں ملوث ہونے کے دو الزامات کو تسلیم کیا مگر اسرار کیا کہ وہ شامی عوام کی مدد کے لیے جا رہے تھے نہ کہ دولتِ اسلامیہ کے ساتھ شامل ہونے۔
مگر انہیں سزا دیتے ہوئے جج مائیکل ٹوپولسکی نے کہا کہ ’وہ اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ جاوید نے اس عزم کو چھوڑ دیا تھا کہ وہ دولتِ اسلامیہ میں شامل ہوں‘ اور وہ سمجھتے ہیں کہ ’وہ اب بھی ایک پرتشدد جہادی سوچ رکھتے ہیں‘ اور انہیں ایک ’خطرناک شخص سمجھتے ہیں۔‘
جمشید جاوید اسرار کرتے ہیں کہ وہ دہشت گرد نہیں ہیں اور اور ان کے فون پر دولتِ اسلامیہ کہ جنگجوؤں کی تصاویر نہیں تھیں یا ایک کٹے ہوئے سر کی نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ 2013 کے آخر میں وہ ’بہت حد تک بنیاد پرست بن چکے تھے اور ایک پرتشدد جہادی ذہنیت کے غلام بن چکے تھے کہ آپ ایک ایسے گروپ کا حصہ بن جائیں جو شام سفر کرنے کو تیار ہے اور دولتِ اسلامیہ میں شامل ہونے کے لیے اور اُن کے ساتھ لڑنے اور ان کے ساتھ مرنے کے لیے تیار ہے۔‘
جج نے کہا کہ ’مجھے یہ پتا چلا ہے کہ آپ واپس نہیں لوٹنا چاہتے تھے اور مرنا چاہتے تھے اور یہ کہ آپ نے اپنے بھائی کو اور تین دوسرے افراد کو لڑائی کے لیے شام بھجوانے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان نوجوانوں میں ایک اب زندہ نہیں ہے اور باقی تین لاپتہ ہیں۔‘
جج نے ایک نو سال کی اضافی سزا بھی دی ہے جس میں سے چھ سال حراستی مدت ہے اور تین سال کا اضافی لائسنس ہے۔
اس سزا کے سنائے جانے کے بعد گریٹر مانچسٹر پولیس کے سپرنٹنڈنٹ ٹونی مول نے کہا کہ ’جاوید ایک قانون پسند شخص تھا اور ایک ذمہ دار ملازم تھا اور اس کا ایک بچہ تھا اور دوسرے کا باپ بننے والے تھے۔‘
’تاہم گذشتہ سال اگست کے بعد ان کا حلیہ اور اور طرزِ عمل بدلنا شروع ہوا اور مختصر مدت میں انہوں نے دولتِ اسلامیہ کے مقاصد کی حمایت کرنا شروع کی اور شام جانے کا منصوبہ بنایا۔ جس کے انہوں نے سازوسامان خریدا اپنے ساتھ لیجانے کے لیے اور دوسروں کو اس سفر کے لیے مالی مدد فراہم کی۔‘
جج ٹوپولسکی نے اُن کی خاندان کی ’ہمت اور حوصلے‘ کی داد دی جو انہوں نے اس سفر کو روکنے میں دکھایا اور پولیس سپرنٹنڈنٹ نے بھی کہا کہ ان کے خاندان نے ’بہادری سے ایسے اقدامات‘ کیے جن سے ان کی روانگی سے قبل حراست ممکن ہوئی۔
Comments
Post a Comment