ایک برطانوی فلمساز کی جانب سے 2012 میں دہلی میں ایک نوجوان طالبہ کے ساتھ گینگ ریپ کے واقعے پر بنائی جانے فلم پر انڈیا میں ہنگامہ برپا ہے۔
عدالتوں نے اس کی بھارت میں نمائش پر پابندی کے احکامات جاری کیے ہیں تو وزیرِ داخلہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس فلم کے بنائے جانے کی تحقیقات کریں گے۔
فلم اور کے بعد برپا ہونے والا ہنگامہ چار لحاظ سے غیر معمولی ہے۔
برطانوی پروڈیوسر لیسلی اڈوِن کی ایک بھارتی جیل میں رسائی اب تک کسی بھارتی جیل میں ہونے والا ایک غیر معمولی واقع ہے۔
انہوں نے ریپ کرنے والے مکیش سنگھ کا تین دن تک 16 گھنٹے طویل انٹرویو کیا اور اُن کا کہنا ہے کہ جیل میں تکنیکی عملے کو جانے کی اجازت جیل حکام اور وزارتِ داخلہ نے دی۔
سماجی کارکن کویتا کرشنن نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ اڈوِن کو جیل میں جانے اور مجرموں تک رسائی ملی جبکہ ’جیل حکام سماجی کارکنوں کو قیدیوں سے ملنے کی اجازت نہیں دیتے فلمبندی تو دور کی بات ہے۔‘
ایک گھنٹہ طویل فلم میں طالبہ کے والدین، خاندان والوں، مجرموں کے خاندان والوں اور اُن کے وکلا سے بات کر کے واقعات کا تانا بانا جوڑا گیا ہے۔
مکیش سنگھ جو موت کی سزا پانے کے منتظر ہیں تین دوسرے مجرموں کے ساتھ نے اس سارے انٹرویو کے دوران شرمندگی یا ندامت کا اظہار نہیں کیا بلکہ ریپ کا شکار طالبہ پر مزاحمت کرنے کا الزام عائد کیا۔
بھارتی ٹی وی چینل ٹائمز ناؤ نے اس فلم کے خلاف مہم کو شروع کرنے کا آغاز کیا جسے اس نے ’شہوت نظری‘ کا نام دیا اور ’تمام صحافتی اقدار کے برخلاف‘ قرار دیا۔
میڈیا میں بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کا زیادہ تعلق ٹائمز ناؤ چینل کی نیو دہلی ٹی وی کے ساتھ مقابلے بازی سے ہے جس کے پاس اس ڈاکومنٹری کو نشر کرنے کے حقوق ہیں۔
اس فلم کے ناقدین نے اس فلم پر ریپ کرنے والے کو بڑھاوا دینے اور اس کو تشہیر کے لیے پلیٹ فارم دینے کا الزام لگایا ہے جس کے نتیجے میں اسی طرح کے جرائم ہوتے ہیں یا ان کی اپیلوں پر اثر انداز ہونے کا الزام کہ ان کی سزائے موت کے عمل میں تیزی لائی جائے۔
دوسرے اس بات پر غصے میں ہیں کہ بھارتی ناظرین کو ’اس قسم کے ظالم انسان کی باتیں سنائی جا رہی ہیں‘ اگرچہ یہ بات اپنی جگہ ہے کہ بھارتی ناظرین پرائم ٹائم کے دوران خوفناک چیزیں دیکھنے کے عادی ہیں۔
دہلی کی عدالت نے فلم پر پابندی عائد کی ہے ’اگلے احکامات تک‘ جب پولیس نے کہا کہ ’مکیش سنگھ کی ذلت اور توہین آمیز باتوں کی وجہ سے ایک خوف کا ماحول پیدا ہو رہا ہے اور اس سے ایک عوامی ردِعمل کا خطرہ ہے اور امکان ہے کہ حالات بد سے بدتر ہو جائیں۔‘
ایک منہ پھٹ دوست کا تو یہ کہنا ہے کہ یہ سارا شور شرابا اور حالات کی خرابی کی باتیں صرف ٹی وی سٹوڈیوز اور سوشل میڈیا تک محدود ہیں۔
وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ نے وعدہ کیا ہے کہ اس بات کی تحقیق کی جائے گی کہ کیسے جیل کے حکام نے فلم ساز کو اجازت دی اور یہ کہ انہیں اس انٹرویو سے شدید دھچکہ لگا۔
افسوس کی بات ہے کہ بھارت ایک پابندیوں کا ملک بنتا جا رہا ہے جہاں فلموں، کتابوں اور حالیہ دنوں میں بیف یعنی بڑے گوشت پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
یہ بات واضح نہیں ہے کہ اس پابندی کی وجہ آیا ایک حساس حکومت ہے جس کے سربراہ وزیراعظم نریندر مودی اپنی ساکھ کے بارے میں بہت حساس ہیں یا یہ کہ وزارتِ داخلہ کو شرمندگی اٹھانا پڑی۔
بہت سے لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ فلم پر پابندی سے بھارت کی ساکھ متاثر ہوتی ہے خاص طور پر جب مودی سرکار بھارت کی عالمی ساکھ کو بہتر بنانے پر کام کر رہے ہیں کہ یہ ایک ایسی پسندیدہ جگہ بن جائے جہاں لوگ سرمایہ کاری اور سیاحت کے لیے آنا پسند کریں تو اس طرح کے جلد بازی میں کیے گئے فیصلے کوئی مدد نہیں کرتے۔
میری ٹوئٹر ٹائم لائن پر ایک امریکی فنکار نے لکھا کہ ’یہ سرپرستی کرنے والی بات ہے کہ آپ اپنے لوگوں سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ اپنے ملک کے بارے میں کیا دیکھ سکتے ہیں‘۔
مصنف سلیل ترپاٹھی نے لکھا کہ ’کوئی بھی ذی ہوش شخص اس فلم پر پابندی کی تجویز نہیں دے رہا ہے۔ یہ غلط ہے۔‘
سینیئر وزیر وینکائی نائڈو کہتے ہیں کہ یہ ’بھارت کو بدنام کرنے کی سازش‘ ہے اور یہ کہ ’بھارت کو نقصان پہنچے گا اگر اڈوِن کی ڈاکومنٹری بھارت سے باہر دکھائی جائے گی۔‘
بہت سے لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بھارت کی ساکھ اس صورت میں متاثر ہو گی جب وہ آزادئ اظہار کی حمایت کرنے والی نہیں ہو گی اس لیے نہیں کہ مکیش سنگھ کیا باتیں کر رہا ہے۔
آخر کیوں وہ بھارتیوں کو یہ فلم نہیں دیکھنے دیتے اور اس کے بارے میں اپنی رائے قائم کرنے دیتے۔ آخر کیوں ریاست اتنی پدرانہ ہے؟
Comments
Post a Comment